مردم گزیده ہوں
سچی دوستی گلاب کے پھول کی مانند هوتی هے احتیاط نہ کی جاۓ تو اس کی مہک اڑ جاتی ہے اور پھول بیکار هوجاتا هے۔ یہ رشتہ جس قدر مضبوط سمجھا جاتا ھے اسی قدر خطرناک بھی هوتا هے۔ رضوان اور میری دوستی بھی اسی طرح تھی۔ جیسے گلاب کے پھول کے ساتھ اس کی دل آویز خوشبو ہوتی هے۔ ہم کالج کے وقت سے ساتھ ساتھ رهے۔ دکھ سکھ خوشی غمی سبھی کچھ سانجھا تھا۔ کالج میں بھی دونوں چھپ چھپ کر اکیلے میں ملتے رهے۔ دوستی مضبوط سے مضبوط تر هوتی گئ۔ ایک وقت آیا کہ ہمیں پل بھر کی جدائ بھی شاق گزرنے لگی۔
اس کے والد کلرک جبکه ہمارے ابو بزنس مین تھے۔ ہمارا گھرانہ تبھی خوشحال تھا۔ لیکن میں نے اسے کبھی محسوس نہ هونے دیا کہ ہم خوشحال هیں اور تم غریب۔ لیکن اسے یہ کبھی کبھی محسوس هوتا تھا۔ میں کوشش کرتا که رضوان کو ویسے ہی تحائف دوں جیسی چیزیں اپنے لیۓ لاتا تھا۔ امی ابو مجھ سے بے حد پیار کرتے تھے۔ تبھی وه رضوان سے بھی کرتے تھے۔ ابو تو کہا کرتے تھے۔ کاشف یعنی مجھ میں یہ سوچ کر تیرے دوست کے لیے جو چیزیں خرید کرلاتا هوں کہ اگر تمہارا کوئ اور بھائ هوتا تو اس کے لیۓ بھی ضرور خریدتا۔ اس سے کاشف اور رضوان کا پیار پورا ہوجاتا۔
ابو ٹھیک کہا کرتے تھے کہ ان دنوں لگتا تھا کہ رضوان دوست ہی نہیں کاشف کا بھائ بھی ہے۔ جب یونیورسٹی جانے لگے تو میں پہلے تیار هوتا تھا اور پھر ڈرائیور کے ساتھ رضوان کے گھر جاتا تھا اور ہم دونوں اکٹھی ایک ہی گاڑی میں یونیورسٹی پہنچ جاتے تھے۔ اچانک ہمارے کاروبار کو کسی کی نظر لگ گئ۔ اور حالات خراب سے خراب تر هوتے گۓ۔ مجھے اپنی یونیورسٹی کی پڑھائ چھوڑنی پڑی۔ ابو نے کہا نیا کاروبار شروع کرنا هے۔ اب تم پڑھائ کو خیرباد کہہ دو۔ کیونکه میں اس وقت گھر میں سب بھائیوں سے بڑا تھا۔ ہمارے ایک انکل ہیں۔ جو انگلینڈ میں ہیں وه اچانک پاکستان آگۓ۔ حالات کا جائزه لیا تو انکو پتہ چلا کہ همارا کاروبار بالکل هی ختم هوچکا هے۔ انہوں نے ابو سے کہا کہ اس کی شادی کردو حالات بہتر هوجائیں گے، میری بیٹی برسرروزگار هے۔ انہوں نے ابو سے میرے رشتہ کی بات کی۔ ابو پہلے ہی بہت پریشان تھے اور مزید پریشان نہیں هونا چاہتے تھے۔ انہوں نے ہاں کردی۔ شادی هوگئ۔ میں تو بے روزگار تھا لیکن انکل کی بیٹی یعنی میری بیوی برسر روزگار تھی۔ اس طرح گزر بسر فی الحال هونے لگی۔ میری پڑھائ بھی تباه ہوچکی تھی۔ نوکری کہاں سے ملتی۔
ہم دونوں دوستوں کی دوستی، محبت اور پیار بھائیوں جیسا تھا۔ اب ہمیں اکیلے میں چھپ چھپ کر اور ڈر ڈر کر ملنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب ہم جوان هوچکے تھے۔ جب بھی رضوان ہمارے گھر آتا تو میرے گھر میں بہار آجاتی۔ میں بے حد خوش هوتا۔ بیوی میری جب گھر آتی تو بھی میں اپنی توجہ اپنے دوست رضوان کی طرف ہی رکھتا۔ میں بیوی کو کم اور رضوان دوست کی طرف زیاده توجه دیتا۔ شروع شروع میں تو میری بیوی رضوان کے آنے سے الجھن محسوس کرتی که یہ کیسا دوست هے جو هر وقت اسکے پاس هی بیٹھا رهتا هے۔ کالج کے زمانے کی باتیں ختم هونے پر نہ آتی تھیں۔ باتیں کرتے کرتے هم تھکتے نہیں تھے۔ کبھی کبھی تو ہم دونوں دوست اچھے سے ریسٹورنٹ میں کھانا بھی کھا آتے۔ یه سب میری بیوی کی کمائ تھی۔ مجھے یہ احساس نہ تھا۔
ایک واقعه سناتا هوں:۔
دراصل یه 1992 کی بات تھی، میرے ابو نے مجھے اسکالرز کالج میں داخل کرایا۔جب همیں پڑھتے هوۓ ایک سال هوگیا، تو هم سیکنڈ ائیر میں چلے گۓ، یه سن 93 کی بات تھی، اس سال جب نیا سیشن آیا، تو اسکی کلاسوں کا آغاز 18 ستمبر 93 ء سے هوا، نۓ لڑکے آگۓ، میں نے جنرل سائنس سٹیٹ میٹھ اکنامکس میں داخله لیا تھا، مجھے ایک لڑکا پسند آگیا، وه آئ کام میں تھا، فرسٹ ائیر میں ایک سال چھوتا، خوبصوررت موٹے موٹے گال، پیاری آنکھیں، جب بھی دیکھو اسے تو شهزادے کی طرح لگتا تھا وه۔ میں نے پهلی هی نظر میں اسے پسند کرلیا تھا اور هم دونوں ایک دوسرے کو نظریں چرا چرا کر بھی دیکھنے لگے تھے۔
ایک دن میں نے اسکو کهه دیا که تم مجھے اچھے لگتے هو، پیارے هو۔ میں تم سے اکیلے میں بات کرنا چاهتا هوں، اگلے دن صبح صبح جب وه آیا تو میں اسے اسی کے پاس اسی کی کلاس میں ملنے چلا گیا، وه بھی اسوقت اکیلا تھا اور میں بھی۔ پھر میں نے اسکو کها که اپنی قمیض کے بٹن کھولے، اسنے پهلے تو شرما شرمی میں انکار کیا مگر میری ضد پر مان گیا، میں گھر سے ایک مارکر لایا تھا، جسے پرمنینٹ مارکر کهتے هیں، اس مارکر کو کھولا اس سے اسکےسینے پر ''آئ لو یو'' لکھ دیا۔ ایسے که ''لو'' کی جگه دل کی تصویر بنادی۔ اسکو سمجھا دیا که گھر میں کسی کو نه بتانا
لیکن وه بھول گیا اور اسی دن گھر جاکر اپنے ابو کے سامنے په کپڑے بدلنے لگا، پھر اچانک اسکے ابو کی نظر پڑ گئ وه گھبراگیا اور جلدی سے دوسری قمیض پهن لی، لیکن دیر هوچکی تھی، ابو نے زبردستی اسی قمیض اتروا کر پوچھا یه میں کیا دیکھ رها هوں۔ اسنے مار کے خوف سے سب کچھ سچ سچ بتادیا۔ بس پھر وه اگلے دن دیر سے 9 بجے کالج پهنچے دونون باپ بیٹا، اور اندر آتے هی اسکے باپ نے اسکو مارنا شروع کردیا، سب لڑکے اس وقت اپنی کلاسوں میں لیکچر سن رهے تھے، وه سب شور و غل سن کر باهر آگۓ، اس کے باپ کو پتا تھا که جس نے یه لکھا هے وه اس سے محبت کرنے لگا هے، وه بھی ضرور باهر آۓ گا۔
اور ایسا هی هوا۔
میں بھی باهر نکلا اور زور زور سے شور مچانے لگا، اسکو اسکے باپ کی پکڑ سے چھین کر اپنے لے آیا اور رونے لگا، اتنے میں پورا کالج شور سن کر کلاسوں سے باهر آگیا۔ پھر اسکا باپ مجھے مارنے کے لیۓ دوڑا لیکن لائبریری سے ایک اسلامیات کے ٹیچر سر ارشد آگۓ، جنکی تصویر میرے دور کے پرانے پراسپیکٹس میں موجود هے، انهوں نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور مار سے بچا لیا، ارشد صاحب نے اسکے باپ کو ڈانٹا اور کها که یه آپ کا بیٹا نهیں هے، آپ اپنے بیٹے کو جتنا مرضی مارنا چاهتے هیں مارلیں لیکن اس کو نهیں مارسکتے اس پر آپ کا کوئ حق نهیں هے یه آپ کا بیٹا نهیں هے
پھر تمام کے تمام اساتذه اور لڑکے اپنی اپنی کلاسون میں چلے گۓ اور اسکا باپ اسے مارتا پیٹتا کالج سے باهر چلا گیا اور کهه گیا که میں تمهیں کسی اور کالج میں داخل کراؤں گا۔ میں نے زور سے چیخ کر کها میں نهیں ڈرتا کسی سے بھی، میں آؤں گا تمهارے گھر کسی دن، اگر میں نے پیار کیا تو صرف تم سے ورنه کسی سے بھی نهیں، سمجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
اب میری بیوی کی غیر موجودگی میں میرے دوست رضوان کا آنا جانا روز کا معمول بن گیا تھا۔ میری زندگی اور میرا کالج کا پیار اسکے بغیر ادھورا تھا۔ رفتہ رفتہ میری بیوی بھی اسکی آمد کی عادی هوگئ۔ ہم تینوں مل کر خوب ہنسی مذاق کرتے۔ شادی کے بعد بھی جب میری بیوی ڈرائیور کے ساتھ ڈیوٹی پر جاتی تو وه راستے سے رضوان کو اسکے گھر سے لفٹ دے دیتی اور خود بھی اسے اسکی یونیورسٹی تک چھوڑ آتی۔۔ جیسے رضوان ہم میاں بیوی کی شخصیتوں کی تکمیل کے لیۓ لازم و ملزوم هوگیا تھا۔ اس معمول کے بھی ہم دونوں عادی هوگۓ تھے۔ جبکه میری بیوی پہلے هی هم دونوں دوستوں کی محبت اور پیار سے واقف تھی۔ هم تینوں میں یه سلسله سال بھر تک چلتا رها میں تو بیروزگار تھا ہی جبکه میری بیوی ایک اچھے روزگار سے لگی تھی۔ میری بیوی رضوان کے آنے سے پہلے الجھن محسوس کرتی تھی کہتی تھی که کاشف یہ تم کیا روز روز ایک ہی دوست کو اپنے ساتھ چپکاۓ رکھتے هو۔ اب تو اسکو اسکے گھر جانے دو۔ وجه یہ تھی که میرا دوست غریب تھا اور اسکی پڑھائ ابھی باقی تھی جو مشکل سے پوری هورهی تھی۔ میری بیوی هی اسکو یونیورسٹی تک ڈراپ کرنے کی ڈیوٹی دے رهی تھی۔ کیونکه یونیورسٹی بیوی کے دفتر کے راسته میں پڑتی تھی۔ اب یه حالات تھے که رضوان اگر کسی دن گھر نہ آپاتا تو زبردستی اصرار کرکے اسکو اسکے گھر سے لے آتی۔ میں تو بے حد خوش تھا اپنے پیارے دوست کے بار بار گھر آنے سے۔
رضوان بے تکان بولتا تھا اور اسکی باتوں سے مزه بھی آتا تھا ۔ وه ایک منٹ کے لیۓ بھی هم دونوں کو بور نہیں هونے دیتا تھا۔ ہم ہر پل ہر لمحے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔ تب جدائ بہت شاق گزرتی هے۔ جب میری شادی هوئ تھی تو مجھے اس وقت اتنا احساس نہ تھا۔ میری شادی جلدی میں هوئ تھی ابھی ذہن کا رشتہ هم دونوں کا اتنا مضبوط نہیں هوا تھا۔ اس بیوی کے ساتھ گزرے تھوڑے دن هوۓ تھے جبکه رضوان کے ساتھ ایک بڑا عرصه گزرا تھا۔ اسکے پیار کو میں اپنا سرمایہ سمجھتا تھا اس پر فخر تھا مجھے۔ اعتبار اور اعتماد دونوں تھا مجھے۔ بیوی کی باتیں ٹھیک لگتی تھیں مجھے، رضوان تھا بھی ایسا۔۔۔۔۔۔۔۔ خوبصورت اور پیارا۔ اس کی باتیں بہت مزے کی لگتی تھیں۔ اسکو باتوں میں کمال حاصل تھا۔ بے تکان بولتا تھا وه۔ اسکو لوگوں کا دل موه لینے کا فن آتا تھا۔ بلکہ میں خود چاہتا تھا کہ وه میرے پاس پاس رهے۔ میرے جیون ساتھی یعنی بیوی کی باتیں تو الگ تھیں ہی لیکن سچ کہون تو میں بیوی کے بغیر رہ سکتا تھا لیکن رضوان کے بغیر نہیں۔
جو دوستی اور پیار اگر کالج لائف میں ہو وه ساتھ ہر پل ہر لمحہ دکھ سکھ کے سانجھی هوتے هیں۔ اتنا پیار تو مجھے میرے بچپن کے دوستوں نے نہیں دیا ہوگا۔ سچ تو یہ هے که انسان چیز هی ایسی هے که اس پر اعتماد نہیں کرنا چاهیے۔ گرچہ اعتماد پر دنیا قائم هے۔ مگر عورت کے معاملے میں مرد کو اور مرد کے معاملے میں عورت کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ خدا کا کرنا ایسا هوا که رضوان کے والدین ایک کار حادثے میں اچانک انتقال کر گۓ۔ اس واقعے نے مجھے بھی ہلا کر رکھ دیا۔ رضوان رو رو کر پاگل هوگیا تھا۔ اس کا خیال رکھنے والا اب کوئ نہ تھا، اسی لیۓ ہم نے سوچا اس کو اپنے گھر پر مستقل رکھ لیا جاۓ۔ گھر کے سو کام هوتے هیں۔ میری بیوی کھانے پینے کی شوقین هے۔ اگر کوئ چیز منگانی هو مارکیٹ سے تو میں خود کهہ دیتا که رضوان کے ساتھ چلی جاؤ۔ یون میں نے اندھے اعتماد سے انکو وه موقع فراہم کردیا جس کا مجھے کبھی احساس نہیں هوا تھا۔ میں نہیں سمجھتا تھا که رضوان اور میری بیوی مجھے دھوکا دیں گے۔ ایک روز میرے ہمساۓ نے فون کرکے مجھے بتا دیا کہ تمہاری بیوی نے رضوان کے ساتھ نکاح کرلیا هے انہوں نے کورٹ میرج کرلی هے۔ اس خبر پر میرے پاؤں سے زمین نکل گئ۔ بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا۔ بیوی جب دفتر سے گھر لوٹی تو پوچھا کیا یہ صحیح هے۔ مجھے کسی نے فون پر یہ بات بتائ هے۔ تردید کی بجاۓ وه خاموش هوگئ۔ جب کافی اصرار کیا که کسی نے مذاق تو نہیں کیا۔ کہنے لگی ایسی باتیں مذاق میں نہیں کہی جاتیں۔ یہ سچ هے میں تم سے اتنی محبت نہیں کرسکتی۔ جتنی کہ رضوان سے۔
یہ سن کر میرے اندر کوئ شے ٹوٹ گئ۔ روح کرچی کرچی ہوگئ۔ بس اس کے بعد سے میرے دل میں تو تصویر تھی وه مٹ گئ۔ یہ تصویر برسوں سے نقش تھی۔ میرے دوست رضوان کے پیار کی شبیہه۔ اس کی جگه ایک زہریلے سانپ نے لے لی۔ میرے اعتماد کا شیشه کیا چکنا چور هوا که میں خود بھی چکنا چور هوگیا۔ اتنا رویا که بتا نہیں سکتا۔ اس کے بعد میں نے ہمیشه کے لیۓ اپنی بیوی کو طلاق دے کر فارغ کردیا اور گھر سے بھی نکال دیا۔ رضوان کی جدائ سے زیاده اسکی بے وفائ تڑپاتی تھی ۔
جس لڑکے سے اتنا پیار کیا تھا میں نے اسے اپنا بھائ جیسا سمجھا اسی نے سانپ بن کر میری خوشیوں کو ڈس لیا تھا۔ مجھے حیرت تھی که انسان اتنے بھی بدل جاتے هیں۔ وه بھی اپنے دل سے قریب اپنے پیارے۔ میں تو اعتبار کے هاتھوں قتل هوگیا تھا، وه گھر جس کو اپنے هاتھوں سے سجایا تھا جس کے در و دیوار پر اپنی اور اپنی بیوی کی تصاویر آویزاں کی تھی جس کے چپہ چپہ پر میں اپنا حق سمجھتا تھا۔ گمان بھی نہیں تھا کہ وہی گھر پل بھر میں مجھ سے چھن جاۓ گا۔ گھر میں اگر زندگی نہ هو تو وه گھر چھن ہی جاتا هے۔ اکیلا رہنا عذاب هوتا هے۔ اس کے بعد میں عرصہ تک خاموش اور صاحب فراموش رہا۔ ایک زنده لاش ہوکر ره گیا۔ خبر نہ تھی کہ اپنے خوابوں اور آرزوؤں کا جنازه اپنے ہی کندھوں پر لیۓ پھروں گا۔ میرا سب کچھ میری بیوی نے مجھ سے چھین لیا۔ سنگدل رضوان نے مجھے فنا کردیا۔
وه دوستی کا زمانه نه تھا، وه اعتبار کا زمانه نه تھا۔ وه ایک طوفان تھا جو میرا سب کچھ بہا کر لے گیا۔ میرے دوست نے دوستی اور احسانوں کا حق ادا کردیا۔ شکر ہے اس نے مجھے کچھ دیا تو۔۔۔۔۔۔۔ کاش دوستی میں ایسا نہ هوتا۔ دوستی کے لفظ کی توہین تو نہ کی هوتی۔ واه میرے دوست رضوان که تو عام سا دوست نکلا۔ دعا کرتا هوں که خدا کسی کو ایسا دوست نه دے۔ اس کے بعد سے مجھے عورتوں سے نفرت هوگئ۔ شادی سے توبہ کرلی۔ دوستی کا یہ کمال تھا پھر دوستی سے کیوں نہ کتراتا۔
آج میں تنہا جی رها هوں اور میرا کوئ دوست نہین۔ سبھی سے کہتا هوں که سانپ پال لینا مگر انسان سے دوستی نہ کرنا۔ اگر دوستی کرلو تو اعتبار نہ کرنا کہ آدمی رسی سے بھی ڈرتا هے۔ جب وه مارگزیده هو۔ مگر میں مار گزیده نہیں هوں۔
ڈرتا هوں آدمی سے کہ مردم گزیده هوں۔
سچی دوستی گلاب کے پھول کی مانند هوتی هے احتیاط نہ کی جاۓ تو اس کی مہک اڑ جاتی ہے اور پھول بیکار هوجاتا هے۔ یہ رشتہ جس قدر مضبوط سمجھا جاتا ھے اسی قدر خطرناک بھی هوتا هے۔ رضوان اور میری دوستی بھی اسی طرح تھی۔ جیسے گلاب کے پھول کے ساتھ اس کی دل آویز خوشبو ہوتی هے۔ ہم کالج کے وقت سے ساتھ ساتھ رهے۔ دکھ سکھ خوشی غمی سبھی کچھ سانجھا تھا۔ کالج میں بھی دونوں چھپ چھپ کر اکیلے میں ملتے رهے۔ دوستی مضبوط سے مضبوط تر هوتی گئ۔ ایک وقت آیا کہ ہمیں پل بھر کی جدائ بھی شاق گزرنے لگی۔
اس کے والد کلرک جبکه ہمارے ابو بزنس مین تھے۔ ہمارا گھرانہ تبھی خوشحال تھا۔ لیکن میں نے اسے کبھی محسوس نہ هونے دیا کہ ہم خوشحال هیں اور تم غریب۔ لیکن اسے یہ کبھی کبھی محسوس هوتا تھا۔ میں کوشش کرتا که رضوان کو ویسے ہی تحائف دوں جیسی چیزیں اپنے لیۓ لاتا تھا۔ امی ابو مجھ سے بے حد پیار کرتے تھے۔ تبھی وه رضوان سے بھی کرتے تھے۔ ابو تو کہا کرتے تھے۔ کاشف یعنی مجھ میں یہ سوچ کر تیرے دوست کے لیے جو چیزیں خرید کرلاتا هوں کہ اگر تمہارا کوئ اور بھائ هوتا تو اس کے لیۓ بھی ضرور خریدتا۔ اس سے کاشف اور رضوان کا پیار پورا ہوجاتا۔
ابو ٹھیک کہا کرتے تھے کہ ان دنوں لگتا تھا کہ رضوان دوست ہی نہیں کاشف کا بھائ بھی ہے۔ جب یونیورسٹی جانے لگے تو میں پہلے تیار هوتا تھا اور پھر ڈرائیور کے ساتھ رضوان کے گھر جاتا تھا اور ہم دونوں اکٹھی ایک ہی گاڑی میں یونیورسٹی پہنچ جاتے تھے۔ اچانک ہمارے کاروبار کو کسی کی نظر لگ گئ۔ اور حالات خراب سے خراب تر هوتے گۓ۔ مجھے اپنی یونیورسٹی کی پڑھائ چھوڑنی پڑی۔ ابو نے کہا نیا کاروبار شروع کرنا هے۔ اب تم پڑھائ کو خیرباد کہہ دو۔ کیونکه میں اس وقت گھر میں سب بھائیوں سے بڑا تھا۔ ہمارے ایک انکل ہیں۔ جو انگلینڈ میں ہیں وه اچانک پاکستان آگۓ۔ حالات کا جائزه لیا تو انکو پتہ چلا کہ همارا کاروبار بالکل هی ختم هوچکا هے۔ انہوں نے ابو سے کہا کہ اس کی شادی کردو حالات بہتر هوجائیں گے، میری بیٹی برسرروزگار هے۔ انہوں نے ابو سے میرے رشتہ کی بات کی۔ ابو پہلے ہی بہت پریشان تھے اور مزید پریشان نہیں هونا چاہتے تھے۔ انہوں نے ہاں کردی۔ شادی هوگئ۔ میں تو بے روزگار تھا لیکن انکل کی بیٹی یعنی میری بیوی برسر روزگار تھی۔ اس طرح گزر بسر فی الحال هونے لگی۔ میری پڑھائ بھی تباه ہوچکی تھی۔ نوکری کہاں سے ملتی۔
ہم دونوں دوستوں کی دوستی، محبت اور پیار بھائیوں جیسا تھا۔ اب ہمیں اکیلے میں چھپ چھپ کر اور ڈر ڈر کر ملنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب ہم جوان هوچکے تھے۔ جب بھی رضوان ہمارے گھر آتا تو میرے گھر میں بہار آجاتی۔ میں بے حد خوش هوتا۔ بیوی میری جب گھر آتی تو بھی میں اپنی توجہ اپنے دوست رضوان کی طرف ہی رکھتا۔ میں بیوی کو کم اور رضوان دوست کی طرف زیاده توجه دیتا۔ شروع شروع میں تو میری بیوی رضوان کے آنے سے الجھن محسوس کرتی که یہ کیسا دوست هے جو هر وقت اسکے پاس هی بیٹھا رهتا هے۔ کالج کے زمانے کی باتیں ختم هونے پر نہ آتی تھیں۔ باتیں کرتے کرتے هم تھکتے نہیں تھے۔ کبھی کبھی تو ہم دونوں دوست اچھے سے ریسٹورنٹ میں کھانا بھی کھا آتے۔ یه سب میری بیوی کی کمائ تھی۔ مجھے یہ احساس نہ تھا۔
ایک واقعه سناتا هوں:۔
دراصل یه 1992 کی بات تھی، میرے ابو نے مجھے اسکالرز کالج میں داخل کرایا۔جب همیں پڑھتے هوۓ ایک سال هوگیا، تو هم سیکنڈ ائیر میں چلے گۓ، یه سن 93 کی بات تھی، اس سال جب نیا سیشن آیا، تو اسکی کلاسوں کا آغاز 18 ستمبر 93 ء سے هوا، نۓ لڑکے آگۓ، میں نے جنرل سائنس سٹیٹ میٹھ اکنامکس میں داخله لیا تھا، مجھے ایک لڑکا پسند آگیا، وه آئ کام میں تھا، فرسٹ ائیر میں ایک سال چھوتا، خوبصوررت موٹے موٹے گال، پیاری آنکھیں، جب بھی دیکھو اسے تو شهزادے کی طرح لگتا تھا وه۔ میں نے پهلی هی نظر میں اسے پسند کرلیا تھا اور هم دونوں ایک دوسرے کو نظریں چرا چرا کر بھی دیکھنے لگے تھے۔
ایک دن میں نے اسکو کهه دیا که تم مجھے اچھے لگتے هو، پیارے هو۔ میں تم سے اکیلے میں بات کرنا چاهتا هوں، اگلے دن صبح صبح جب وه آیا تو میں اسے اسی کے پاس اسی کی کلاس میں ملنے چلا گیا، وه بھی اسوقت اکیلا تھا اور میں بھی۔ پھر میں نے اسکو کها که اپنی قمیض کے بٹن کھولے، اسنے پهلے تو شرما شرمی میں انکار کیا مگر میری ضد پر مان گیا، میں گھر سے ایک مارکر لایا تھا، جسے پرمنینٹ مارکر کهتے هیں، اس مارکر کو کھولا اس سے اسکےسینے پر ''آئ لو یو'' لکھ دیا۔ ایسے که ''لو'' کی جگه دل کی تصویر بنادی۔ اسکو سمجھا دیا که گھر میں کسی کو نه بتانا
لیکن وه بھول گیا اور اسی دن گھر جاکر اپنے ابو کے سامنے په کپڑے بدلنے لگا، پھر اچانک اسکے ابو کی نظر پڑ گئ وه گھبراگیا اور جلدی سے دوسری قمیض پهن لی، لیکن دیر هوچکی تھی، ابو نے زبردستی اسی قمیض اتروا کر پوچھا یه میں کیا دیکھ رها هوں۔ اسنے مار کے خوف سے سب کچھ سچ سچ بتادیا۔ بس پھر وه اگلے دن دیر سے 9 بجے کالج پهنچے دونون باپ بیٹا، اور اندر آتے هی اسکے باپ نے اسکو مارنا شروع کردیا، سب لڑکے اس وقت اپنی کلاسوں میں لیکچر سن رهے تھے، وه سب شور و غل سن کر باهر آگۓ، اس کے باپ کو پتا تھا که جس نے یه لکھا هے وه اس سے محبت کرنے لگا هے، وه بھی ضرور باهر آۓ گا۔
اور ایسا هی هوا۔
میں بھی باهر نکلا اور زور زور سے شور مچانے لگا، اسکو اسکے باپ کی پکڑ سے چھین کر اپنے لے آیا اور رونے لگا، اتنے میں پورا کالج شور سن کر کلاسوں سے باهر آگیا۔ پھر اسکا باپ مجھے مارنے کے لیۓ دوڑا لیکن لائبریری سے ایک اسلامیات کے ٹیچر سر ارشد آگۓ، جنکی تصویر میرے دور کے پرانے پراسپیکٹس میں موجود هے، انهوں نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور مار سے بچا لیا، ارشد صاحب نے اسکے باپ کو ڈانٹا اور کها که یه آپ کا بیٹا نهیں هے، آپ اپنے بیٹے کو جتنا مرضی مارنا چاهتے هیں مارلیں لیکن اس کو نهیں مارسکتے اس پر آپ کا کوئ حق نهیں هے یه آپ کا بیٹا نهیں هے
پھر تمام کے تمام اساتذه اور لڑکے اپنی اپنی کلاسون میں چلے گۓ اور اسکا باپ اسے مارتا پیٹتا کالج سے باهر چلا گیا اور کهه گیا که میں تمهیں کسی اور کالج میں داخل کراؤں گا۔ میں نے زور سے چیخ کر کها میں نهیں ڈرتا کسی سے بھی، میں آؤں گا تمهارے گھر کسی دن، اگر میں نے پیار کیا تو صرف تم سے ورنه کسی سے بھی نهیں، سمجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
اب میری بیوی کی غیر موجودگی میں میرے دوست رضوان کا آنا جانا روز کا معمول بن گیا تھا۔ میری زندگی اور میرا کالج کا پیار اسکے بغیر ادھورا تھا۔ رفتہ رفتہ میری بیوی بھی اسکی آمد کی عادی هوگئ۔ ہم تینوں مل کر خوب ہنسی مذاق کرتے۔ شادی کے بعد بھی جب میری بیوی ڈرائیور کے ساتھ ڈیوٹی پر جاتی تو وه راستے سے رضوان کو اسکے گھر سے لفٹ دے دیتی اور خود بھی اسے اسکی یونیورسٹی تک چھوڑ آتی۔۔ جیسے رضوان ہم میاں بیوی کی شخصیتوں کی تکمیل کے لیۓ لازم و ملزوم هوگیا تھا۔ اس معمول کے بھی ہم دونوں عادی هوگۓ تھے۔ جبکه میری بیوی پہلے هی هم دونوں دوستوں کی محبت اور پیار سے واقف تھی۔ هم تینوں میں یه سلسله سال بھر تک چلتا رها میں تو بیروزگار تھا ہی جبکه میری بیوی ایک اچھے روزگار سے لگی تھی۔ میری بیوی رضوان کے آنے سے پہلے الجھن محسوس کرتی تھی کہتی تھی که کاشف یہ تم کیا روز روز ایک ہی دوست کو اپنے ساتھ چپکاۓ رکھتے هو۔ اب تو اسکو اسکے گھر جانے دو۔ وجه یہ تھی که میرا دوست غریب تھا اور اسکی پڑھائ ابھی باقی تھی جو مشکل سے پوری هورهی تھی۔ میری بیوی هی اسکو یونیورسٹی تک ڈراپ کرنے کی ڈیوٹی دے رهی تھی۔ کیونکه یونیورسٹی بیوی کے دفتر کے راسته میں پڑتی تھی۔ اب یه حالات تھے که رضوان اگر کسی دن گھر نہ آپاتا تو زبردستی اصرار کرکے اسکو اسکے گھر سے لے آتی۔ میں تو بے حد خوش تھا اپنے پیارے دوست کے بار بار گھر آنے سے۔
رضوان بے تکان بولتا تھا اور اسکی باتوں سے مزه بھی آتا تھا ۔ وه ایک منٹ کے لیۓ بھی هم دونوں کو بور نہیں هونے دیتا تھا۔ ہم ہر پل ہر لمحے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔ تب جدائ بہت شاق گزرتی هے۔ جب میری شادی هوئ تھی تو مجھے اس وقت اتنا احساس نہ تھا۔ میری شادی جلدی میں هوئ تھی ابھی ذہن کا رشتہ هم دونوں کا اتنا مضبوط نہیں هوا تھا۔ اس بیوی کے ساتھ گزرے تھوڑے دن هوۓ تھے جبکه رضوان کے ساتھ ایک بڑا عرصه گزرا تھا۔ اسکے پیار کو میں اپنا سرمایہ سمجھتا تھا اس پر فخر تھا مجھے۔ اعتبار اور اعتماد دونوں تھا مجھے۔ بیوی کی باتیں ٹھیک لگتی تھیں مجھے، رضوان تھا بھی ایسا۔۔۔۔۔۔۔۔ خوبصورت اور پیارا۔ اس کی باتیں بہت مزے کی لگتی تھیں۔ اسکو باتوں میں کمال حاصل تھا۔ بے تکان بولتا تھا وه۔ اسکو لوگوں کا دل موه لینے کا فن آتا تھا۔ بلکہ میں خود چاہتا تھا کہ وه میرے پاس پاس رهے۔ میرے جیون ساتھی یعنی بیوی کی باتیں تو الگ تھیں ہی لیکن سچ کہون تو میں بیوی کے بغیر رہ سکتا تھا لیکن رضوان کے بغیر نہیں۔
جو دوستی اور پیار اگر کالج لائف میں ہو وه ساتھ ہر پل ہر لمحہ دکھ سکھ کے سانجھی هوتے هیں۔ اتنا پیار تو مجھے میرے بچپن کے دوستوں نے نہیں دیا ہوگا۔ سچ تو یہ هے که انسان چیز هی ایسی هے که اس پر اعتماد نہیں کرنا چاهیے۔ گرچہ اعتماد پر دنیا قائم هے۔ مگر عورت کے معاملے میں مرد کو اور مرد کے معاملے میں عورت کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ خدا کا کرنا ایسا هوا که رضوان کے والدین ایک کار حادثے میں اچانک انتقال کر گۓ۔ اس واقعے نے مجھے بھی ہلا کر رکھ دیا۔ رضوان رو رو کر پاگل هوگیا تھا۔ اس کا خیال رکھنے والا اب کوئ نہ تھا، اسی لیۓ ہم نے سوچا اس کو اپنے گھر پر مستقل رکھ لیا جاۓ۔ گھر کے سو کام هوتے هیں۔ میری بیوی کھانے پینے کی شوقین هے۔ اگر کوئ چیز منگانی هو مارکیٹ سے تو میں خود کهہ دیتا که رضوان کے ساتھ چلی جاؤ۔ یون میں نے اندھے اعتماد سے انکو وه موقع فراہم کردیا جس کا مجھے کبھی احساس نہیں هوا تھا۔ میں نہیں سمجھتا تھا که رضوان اور میری بیوی مجھے دھوکا دیں گے۔ ایک روز میرے ہمساۓ نے فون کرکے مجھے بتا دیا کہ تمہاری بیوی نے رضوان کے ساتھ نکاح کرلیا هے انہوں نے کورٹ میرج کرلی هے۔ اس خبر پر میرے پاؤں سے زمین نکل گئ۔ بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا۔ بیوی جب دفتر سے گھر لوٹی تو پوچھا کیا یہ صحیح هے۔ مجھے کسی نے فون پر یہ بات بتائ هے۔ تردید کی بجاۓ وه خاموش هوگئ۔ جب کافی اصرار کیا که کسی نے مذاق تو نہیں کیا۔ کہنے لگی ایسی باتیں مذاق میں نہیں کہی جاتیں۔ یہ سچ هے میں تم سے اتنی محبت نہیں کرسکتی۔ جتنی کہ رضوان سے۔
یہ سن کر میرے اندر کوئ شے ٹوٹ گئ۔ روح کرچی کرچی ہوگئ۔ بس اس کے بعد سے میرے دل میں تو تصویر تھی وه مٹ گئ۔ یہ تصویر برسوں سے نقش تھی۔ میرے دوست رضوان کے پیار کی شبیہه۔ اس کی جگه ایک زہریلے سانپ نے لے لی۔ میرے اعتماد کا شیشه کیا چکنا چور هوا که میں خود بھی چکنا چور هوگیا۔ اتنا رویا که بتا نہیں سکتا۔ اس کے بعد میں نے ہمیشه کے لیۓ اپنی بیوی کو طلاق دے کر فارغ کردیا اور گھر سے بھی نکال دیا۔ رضوان کی جدائ سے زیاده اسکی بے وفائ تڑپاتی تھی ۔
جس لڑکے سے اتنا پیار کیا تھا میں نے اسے اپنا بھائ جیسا سمجھا اسی نے سانپ بن کر میری خوشیوں کو ڈس لیا تھا۔ مجھے حیرت تھی که انسان اتنے بھی بدل جاتے هیں۔ وه بھی اپنے دل سے قریب اپنے پیارے۔ میں تو اعتبار کے هاتھوں قتل هوگیا تھا، وه گھر جس کو اپنے هاتھوں سے سجایا تھا جس کے در و دیوار پر اپنی اور اپنی بیوی کی تصاویر آویزاں کی تھی جس کے چپہ چپہ پر میں اپنا حق سمجھتا تھا۔ گمان بھی نہیں تھا کہ وہی گھر پل بھر میں مجھ سے چھن جاۓ گا۔ گھر میں اگر زندگی نہ هو تو وه گھر چھن ہی جاتا هے۔ اکیلا رہنا عذاب هوتا هے۔ اس کے بعد میں عرصہ تک خاموش اور صاحب فراموش رہا۔ ایک زنده لاش ہوکر ره گیا۔ خبر نہ تھی کہ اپنے خوابوں اور آرزوؤں کا جنازه اپنے ہی کندھوں پر لیۓ پھروں گا۔ میرا سب کچھ میری بیوی نے مجھ سے چھین لیا۔ سنگدل رضوان نے مجھے فنا کردیا۔
وه دوستی کا زمانه نه تھا، وه اعتبار کا زمانه نه تھا۔ وه ایک طوفان تھا جو میرا سب کچھ بہا کر لے گیا۔ میرے دوست نے دوستی اور احسانوں کا حق ادا کردیا۔ شکر ہے اس نے مجھے کچھ دیا تو۔۔۔۔۔۔۔ کاش دوستی میں ایسا نہ هوتا۔ دوستی کے لفظ کی توہین تو نہ کی هوتی۔ واه میرے دوست رضوان که تو عام سا دوست نکلا۔ دعا کرتا هوں که خدا کسی کو ایسا دوست نه دے۔ اس کے بعد سے مجھے عورتوں سے نفرت هوگئ۔ شادی سے توبہ کرلی۔ دوستی کا یہ کمال تھا پھر دوستی سے کیوں نہ کتراتا۔
آج میں تنہا جی رها هوں اور میرا کوئ دوست نہین۔ سبھی سے کہتا هوں که سانپ پال لینا مگر انسان سے دوستی نہ کرنا۔ اگر دوستی کرلو تو اعتبار نہ کرنا کہ آدمی رسی سے بھی ڈرتا هے۔ جب وه مارگزیده هو۔ مگر میں مار گزیده نہیں هوں۔
ڈرتا هوں آدمی سے کہ مردم گزیده هوں۔
kis kis larki aunty baji bhabhi nurse collage girl school girl darzan housewife ledy teacher ledy doctor apni phodi mia real mia lun lana chati hia to muj ko call or sms kar sakati hia only leady any girl only girls 03025237678
ReplyDeleteایسی تمام لڑکیاں یا آنٹی لمبے اور موٹے لن سے اپنی پھدی کی پیاس بجھانا چہاتی ہیں اور ایسی پیاسی لڑکیاں اور آنٹیز جن کو لن لینے کا بہت دل ھے مگر وہ بدنامی کے ڈر کی وجہ سے لن نھی لے پاتی وہ رابطہ کریں میں مکمل رازداری سے پھدی کی پیاس بجھا دونگا اور کسی کو خبر بھی نہں ھو گی خفیہ سکیس کے لیے لڑکیاں اور آنٹی رابطہ کرے اپنے لمبے اور موٹے لن سے پھدی کو ایسا مزہ دونگا کہ آپ یاد کرو گی سب کچھ مکمل رازداری میں ھوگا اس لیے بنا ڈرے رابطہ کرے فون نمبر 03005755442
ReplyDelete